سپریم کورٹ نے 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات کے مبینہ ’’بڑی سازش‘‘ کیس میں سماجی کارکن عمر خالد، شرجیل امام، گل فشہ فاطمہ اور میران حیدر کی ضمانت درخواستوں پر دہلی پولیس کی تاخیر پر سخت برہمی ظاہر کی ہے۔
عدالت نے واضح کہا کہ پولیس کے پاس جواب جمع کرانے کے لیے کافی وقت تھا، اور ضمانت جیسے معاملات میں جواب یا جوابی اپیل داخل کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
جسٹس اروند کمار اور این وی انجاریہ کی بنچ نے سماعت کے دوران کہا:
“ہم نے پچھلی بار ہی کہہ دیا تھا کہ 27 اکتوبر کو ہم معاملہ سن کر فیصلہ کریں گے۔ صاف طور پر کہنا ہے کہ ضمانت کے معاملے میں ’کاؤنٹر فائلنگ‘ کا کوئی جواز نہیں۔”
ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل سری پرکاش راجو نے پولیس کی جانب سے مزید وقت مانگا تو عدالت نے انکار کرتے ہوئے کہا:
“آپ جمعہ کو ہر حال میں مکمل ہدایت کے ساتھ پیش ہوں، دیکھیں کیا کیا جا سکتا ہے… پانچ سال ہو گئے ہیں، یہ صرف ضمانت کی عرضی کا معاملہ ہے۔”
ان سماجی کارکنوں کی جانب سے سینئر وکلاء کپل سبل، سی یو سنگھ، ابھیشیک منو سنگھوی اور سدھارتھ دیو پیش ہوئے۔ تمام وکلاء نے اس طویل قید پر گہری تشویش ظاہر کی جو ملزمان کو پانچ برس سے برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔
یہ درخواست دہلی ہائی کورٹ کے 2 ستمبر 2024 کے فیصلے کے خلاف داخل کی گئی تھی، جس میں عمر خالد، شرجیل امام، آتھر خان، خالد سیفی، محمد سلیم خان، شفاء الرحمٰن اور شاداب احمد کی ضمانت عرضیاں مسترد کر دی گئی تھیں۔ قانونی ماہرین نے اس فیصلے کو ’’عدالتی انصاف کے منہ پر دھبہ‘‘ قرار دیا تھا۔
مقدمہ ایف آئی آر 59/2020 کے تحت درج کیا گیا تھا، جس میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی۔
انسانی حقوق تنظیموں اور قانونی ماہرین نے بارہا سوال اٹھایا ہے کہ دہلی پولیس نے اس کیس میں جانب دارانہ تفتیش کی اور ثبوت کے طور پر محض واٹس ایپ گروپس میں موجودگی کو بنیاد بنایا۔پانچ برس گزر جانے کے باوجود مقدمے کی سماعتوں میں تاخیر نے نہ صرف عدالتی عمل پر سوال کھڑے کیے ہیں بلکہ ان قیدیوں کے بنیادی حقوق پر بھی سنگین بحث چھیڑ دی ہے۔