یوپی کے سنبھل میں مندر-مسجد تنازعہ میں سروے کرانے کے سلسلے میں ہوئے فساد کے ملزمان کو سپریم کورٹ سے ضمانت مل گئی ہے۔ عدالت نے رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’’ملزمان کو زیادہ وقت کے لیے جیل میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔‘‘ سنبھل فساد کے ملزمان دانش، فیضان اور ناظر کو جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس آر مہادیون کی بنچ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب کہ ان کی رہائی کی شرطیں نچلی عدالت کے ذریعہ طے کی جائیں گی۔ واضح رہے کہ پہلے ان تینوں ملزمان کو نچلی عدالت اور ہائی کورٹ سے مایوسی ملی تھی، جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سنبھل فساد معاملہ کے ملزمان کو اس بنیاد پر ضمانت دی کہ اترپردیش کی پولیس تحقیقات مکمل کر چکی ہے اور چارج شیٹ بھی دائر کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں غیر معینہ مدت تک ملزمان کو جیل میں نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ ان پر الزام ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ جبکہ یوپی ہائی کورٹ اور نچلی عدالت نے ملزمان کو کوئی راحت نہیں دی تھی۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہندوستانی فوجداری طریقہ کار کی بنیادی روح کو واضح کرتا ہے کہ ’بے قصور تب تک بے قصور ہے جب تک جرم ثابت نہ ہو۔‘
واضح رہے کہ سنبھل کی تاریخی مسجد کے خلاف ایک فریق نے عدالت میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے ایک عرضی داخل کی تھی کہ عمارت بنیادی طور پر ایک مندر تھا۔ اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو مسجد کا سروے کرنے کا حکم دیا تھا۔ 21 فروری 2024 کو جس روز اے ایس آئی کی ٹیم سروے کے لیے پہنچی شہر میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑے تھے۔ مسلم فریق کا کہنا ہے کہ سروے ٹیم بغیر مسجد کمیٹی کو اطلاع دیے صبح کے وقت میں سروے کرنے آئی تھی، جس کو مقامی لوگوں کے ذریعہ روکنے کی کوشش کی گئی اور فساد پھوٹ پڑا۔ پولیس نے 125 سے زائد لوگوں کے خلاف نامزد اور قریب 500 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی اور 32 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔